اے آئی ۔۔۔ بڑی آئی! – Blog

پاکستان میں آج کل اے آئی بہت زور سے آئی ہوئی ہے۔ ہر کس و ناکس اسی کے جنون میں مبتلا ہے، جسے دیکھو وہ اے آئی ’’کرنا‘‘ چاہتا ہے۔ غضب خدا کا! اے آئی نہ ہوئی، ’’فطری حاجت‘‘ ہوگئی جسے ہر کوئی ’’رفع‘‘ کرنے کی دُھن میں لگا ہوا ہے۔ خیر، صارف معاشروں (کنزیومر سوسائٹیز) کا یہی چلن ہوا کرتا ہے۔

پہلے بھی لکھ چکا ہوں، ایک بار پھر لکھ رہا ہوں کہ مصنوعی ذہانت نے بہت سوں کو مصنوعی ذہین بنا دیا ہے۔ ورنہ، درحقیقت، وہ اندر سے کھوکھلے کے کھوکھلے ہی ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے حقیقی محتاج۔
لیکن یہ پہلا موقع ہر گز نہیں۔ جو کچھ آج ’’اے آئی جنون‘‘ کی صورت ہمارے سامنے ہے، آج سے لگ بھگ پچیس سال پہلے، سن 2000ء کے زمانے میں، ایسا ہی سب کچھ ہوچکا ہے۔ موجودہ منظر دیکھ کر بے اختیار Deja vu کا احساس جنم لینے لگتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ تب ’’آئی ٹی‘‘ (انفارمیشن ٹیکنالوجی) تھی، اور آج ’’اے آئی‘‘ (آرٹیفیشل انٹیلی جینس) ہے۔

یہ بات غالباً 2001ء کی ہے۔ تقریب میں ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی جو ’’آئی ٹی‘‘ کے لیے بہت پُرجوش تھا۔ کہنے لگا، ’’سر! مجھے آئی ٹی کرنی ہے۔‘‘ میں نے پوچھا، ’’لیکن کیا آپ جانتے بھی ہیں کہ آئی ٹی کا مطلب کیا ہے؟‘‘ کہنے لگا، ’’مجھے اس سے کوئی غرض نہیں۔ مجھے تو بس آئی ٹی کرنی ہے!‘‘

اور پھر سب نے دیکھا کہ آئی ٹی کے بلبلے (آئی ٹی ببل) میں سے کس تیزی سے ہوا نکلی اور بھیڑ چال میں دوسروں کی اندھی تقلید کرنے والوں کا کیا حال ہوا۔ آج یہ واقعہ ’’ڈاٹ کام ببل بسٹ‘‘ (Dot Com Bubble Bust) کے عنوان سے تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔

من حیث القوم، ہماری اکثریت کے سر پر اے آئی کا بخار چڑھ چکا ہے۔ کیا اسکول، کیا کالج اور کیا یونیورسٹی؛ کیا نجی شعبہ اور کیا سرکاری ادارہ جات؛ کیا پالیسی ساز اور کیا حکومتیں… سب کے سب ’’اے آئی عشق‘‘ میں گرفتار ہیں اور ’’مِری سادگی دیکھ، کیا چاہتا ہوں‘‘ کی تصویرِ مجسّم بنے ہوئے ہیں۔کوئی یہ سوچنے اور غور کرنے کو تیار ہی نہیں کہ آخر ہم مصنوعی ذہانت سے کیونکر مستفید ہوسکتے ہیں، انفرادی اور اجتماعی سطحوں پر ہماری حکمتِ عملی کیا ہونی چاہیے اور، اس سے بھی بڑھ کر، کیا ہم مصنوعی ذہانت کے ’’اچھے صارف‘‘ ہی رہیں گے یا اس میدان میں کچھ نیا، کچھ اپنا، کچھ قابلِ تقیلد، کچھ منفرد تخلیق بھی کر پائیں گے؟

ایلن ٹیورنگ سے لے کر نوبل انعام یافتہ جیوفری ایورسٹ ہنٹن (المعروف: گاڈ فادر آف اے آئی) تک، جدید تاریخ میں سینکڑوں ایسے نام ہمارے سامنے آتے ہیں جنہوں نے اپنی خداداد، فطری ذہانت استعمال کی، تخلیقی سوچ بیدار رکھی اور تجسس کے سہارے ایک ایک قدم کر کے، مصنوعی ذہانت کو آگے بڑھاتے رہے۔ یہاں تک کہ ہم نے ایک ایسا انقلاب برپا ہوتے دیکھا جس نے مصنوعی ذہانت کو ساری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا دیا۔ سرمایہ داروں نے دل کھول کر اے آئی پر پیسہ لگایا تو سیاست دان سوچنے لگے کہ وہ مستقبل میں کس طرح اے آئی کو بطور ہتھیار استعمال کرسکیں گے۔

’’ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘‘ کے مصداق، اے آئی جہاں دنیا بدل رہی ہے، وہاں خود اے آئی کی دنیا بھی تیزی سے تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ اب یہ صرف تحقیق و ترقی (R&D) کا میدان نہیں رہی بلکہ ہزار ہا ارب ڈالر سرمایہ کاری اور عالمی سیاسی برتری کا محاذ بھی بن چکی ہے۔ سمجھدار ممالک اپنے اپنے حصے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور ہم جیسی اقوام کا معاملہ محض تماشائیوں (بلکہ تماش بینوں) والا ہی بن کر رہ گیا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے اس عالمی منظر نامے میں جو کچھ ہمیں دکھائی دے رہا ہے، اس کے پسِ پشت ایسا بہت کچھ ہے جو ہماری نظروں سے دُور ہے (یا شاید ہم دیدۂ دانستہ اس میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے)۔

مثلاً: اپنی ابتداء میں ’’اے آئی، تمام انسانیت کے لیے‘‘ کا نعرہ لگانے والی ’’اوپن اے آئی‘‘ میں اب نام کے علاوہ اور کچھ بھی ’’اوپن‘‘ نہیں رہا۔ ’’ناٹ فار پرافٹ‘‘ سے شروع ہونے والا سفر محض چند برسوں میں ’’فار پرافٹ‘‘ تک پہنچ چکا ہے۔ آج اگر آپ اوپن اے آئی کی ’’جدید ترین‘‘ مصنوعات سے مستفید ہونا چاہتے ہیں تو اس کے لیے آپ کو سالانہ یا ماہانہ ’سبسکرپشن‘ حاصل کرنا ہوگی ورنہ… ان ہی پرانے دھرانے ’اوزاروں‘ پر تکیہ کرنا پڑے گا۔

یہ بھی سچ ہے کہ جدید مصنوعی ذہانت اپنی بقاء اور ترقی، دونوں کے لیے بہت زیادہ توانائی کی ضرورت ہے۔ امریکہ کی بات کریں تو اس کے پاس بھی توانائی کے اتنے ذرائع نہیں کہ جو مصنوعی ذہانت سے منسلک ڈیٹا سینٹرز میں توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات پوری کرسکیں۔ آئندہ ایک سے دو سال میں امریکہ کو اپنے یہاں توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت میں نمایاں اضافہ کرنا ہوگا جس کا محتاط تخمینہ، چالیس سے پچاس گیگاواٹ کے درمیان ہے۔ تاہم، امریکہ کے لیے بھی یہ ممکن نہیں کہ وہ اتنی کم مدت میں نئے بجلی گھر تعمیر کرسکے اور بڑھتی ہوئی ان ضروریات کو مناسب طور پر پورا کرسکے۔ اس تناظر میں دو خدشات زیادہ نمایاں ہیں: امریکہ میں بجلی کی قیمت بہت زیادہ بڑھ جائے گی؛ اور آئندہ چند سال کے دوران امریکیوں کو بھی (پاکستانیوں کی طرح!) لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

حیرت انگیز طور پر، چین نے پہلے ہی سے خاطر خواہ اضافی بجلی کا بندوبست کر رکھا ہے اور وہاں جدید مصنوعی ذہانت پر بھی خوب کام ہو رہا ہے۔ آسان اور سیاسی الفاظ میں کہیں تو ’’چین نے امریکہ کو پچھاڑ دیا ہے۔‘‘ امریکی پالیسی سازوں کو بھی اپنے پیچھے رہ جانے کا شدت سے احساس ہے، لہٰذا (بے ضابطہ ہی سہی لیکن) امریکہ نے چین کے ساتھ ’’اے آئی دوڑ‘‘ شروع کردی ہے۔ یہ کم و بیش ویسا ہی معاملہ ہے جیسا 1950ء کے عشرے میں سابق سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان ’’خلائی دوڑ‘‘ کا تھا۔ عنوان بدل گیا ہے لیکن امریکی پالیسی سازوں کا انداز وہی ہے: ’’ہمیں اے آئی میں زیادہ سے زیادہ اور جلد از جلد سرمایہ کاری کی ضرورت ہے ورنہ چین ہم سے بہت آگے نکل جائے گا۔‘‘ (اب کیا کریں جناب! عالمی سیاست اسی کو کہتے ہیں۔)

معاملہ صرف خود آگے بڑھنے کا نہیں بلکہ غنیم کو آگے بڑھنے سے روکنے کا بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے اپنی ان تمام مقامی کمپنیوں کو، جو مصنوعی ذہانت سے تعلق رکھنے والے خصوصی ہارڈویئر (چپس اور گرافک کارڈ وغیرہ) اور سافٹ ویئر تیار کرتی ہیں، پابند کردیا ہے کہ وہ ’’چین کو یہ ساز و سامان ہر گز نہیں فروخت کریں گی۔‘‘

وجہ سیاسی ہو یا کچھ اور، مصنوعی ذہانت کے استعمال میں ہم پاکستانی بھی عالمی پابندیوں کا شکار ہوسکتے ہیں۔ مثلاً امریکہ ہم سے کہہ سکتا ہے کہ پاکستان تو چین کا اتحادی ہے لہٰذا جدید امریکی اے آئی تک اس کی رسائی ختم کی جارہی ہے۔ ایک اور امکان یہ بھی ہے کہ ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے، مصنوعی ذہانت کے اوزاروں (اے آئی ٹولز) کی عالمی دستیابی محدود کردی جائے تاکہ امریکہ میں بجلی کے پیداواری اور ترسیلی نظام پر ’’غیرملکی بوجھ‘‘ نہ پڑے۔ کوئی بعید نہیں کہ ’غیر امریکیوں‘ پر کھلم کھلا پابندی لگانے کے بجائے، ان کے لیے اے آئی ٹولز کی لاگت (سبسکرپشن فیس وغیرہ کی مد میں) اتنی بڑھا دی جائے کہ ایک عام پاکستانی ان سے فائدہ اٹھانے کا سوچ بھی نہ سکے۔ (خیر سے ہم پاکستانیوں کو ہر معاملے میں مفت خوری کی ایسی عادت پڑ چکی ہے کہ ہم ہر چیز کے لیے سب سے پہلے ’’مفت آپشن‘‘ ہی تلاش کرتے ہیں۔)

قصہ مختصر یہ کہ مصنوعی ذہانت کے سامنے ایک غیرمعمولی ’’امکانی بحران‘‘ منہ پھاڑے کھڑا ہے۔ سرِدست یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ آنے والے برسوں میں یہ بحران حقیقت کا روپ دھار لے گا یا پھر اسے پیدا ہونے سے پہلے ہی حل کرلیا جائے گا۔

البتہ، حالات کے آئینے میں دیکھتے ہوئے، معقولیت پسندانہ (rational) پیش گوئی کی جائے تو اکیسویں صدی کی ابتداء میں ’’ڈاٹ کام ببل بسٹ‘‘ کی طرح ’’اے آئی ببل بسٹ‘‘ کے امکانات خاصے بڑھتے جارہے ہیں، بالخصوص امریکہ اور یورپی ممالک میں۔ وہی ممالک جن کی شہریت حاصل کرنے کے لیے ہم مشرقی لوگ تڑپ رہے ہوتے ہیں۔

معذرت چاہوں گا اگر میرا یہ اظہارِ خیال آپ کو مایوس کن محسوس ہوا ہو۔ ہوسکتا ہے کہ میرے خیالات یکسر غلط ثابت ہوجائیں، ممکن ہے کہ ایسا کچھ بھی نہ ہو جس کی پیش گوئی کرکے میں خود کو ’’تُرَّم خاں‘‘ سمجھ بیٹھا ہوں… ارے بھئی عالم الغیب تو ہوں نہیں کہ مستقبل کے پردے میں جھانک کر دیکھ سکوں!

اس کے برعکس، واقعہ یہ ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے دیگر شعبوں کی طرح، مصنوعی ذہانت کے میدان میں بھی پیش رفت کا مشاہدہ 1990ء کے عشرے سے میری دلچسپی کا خصوصی موضوع رہا ہے۔ اے آئی میں اتار چڑھاؤ، کامیابیوں اور ناکامیوں کا سلسلہ چلتا رہا لیکن ہم پاکستانیوں کا اندازِ فکر ، من حیث القوم جوں کا توں رہا۔ تحقیق و جستجو، غور و فکر، تجزیہ و تفتیش کبھی ہمارے قومی مزاج کا حصہ نہیں رہے، آج بھی نہیں اور شاید آئندہ بھی نہیں رہیں گے۔

آگے بڑھنے کے لیے اس سوچ اور مزاج سے چھٹکارا پانا اشد ضروری ہے۔ ہمیں صرف اے آئی ہی نہیں بلکہ دوسرے ہر شعبے اور چھوٹے بڑے معاملے کو بھی بغور دیکھنا ہوگا، اس کے ہر پہلو کا جائزہ لینا ہوگا تاکہ منفی امکانات کم سے کم کرتے ہوئے، مثبت و مفید نتائج کے امکانات خوب سے خوب تر بنائے جاسکیں اور ملک و قوم کے لیے، اپنے لیے، ایک بہتر مستقبل کشید کیا جاسکے۔

ایک بار پھر، مجھے فین فالوئنگ نہیں چاہیے، لائکس اور شیئرز کی بھی ہوس نہیں۔ خواہش صرف اتنی سی ہے کہ میری تحریر پڑھنے کے بعد آپ میرے خیالات سے مرعوب و مایوس نہ ہوں بلکہ اپنی ’’خداداد فطری ذہانت‘‘ کے پیمانے پر میری باتوں کو پرکھیے اور کوئی ایسی رائے قائم کیجیے جو آپ کی اپنی ہو۔

چلتے چلتے اتنا مزید اضافہ کرنا چاہوں گا کہ کسی بھی دوسری انسانی ایجاد کی طرح مصنوعی ذہانت بھی نہ تو اچھی ہے اور نہ ہی بری۔ اس کے اچھے یا برے ہونے کا فیصلہ اس بنیاد پر ہوگا کہ ہم اس سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں۔

نوٹ: مصنف کی آرا سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔


Source link

Check Also

طالبان رجیم کو ختم کرنے کیلئے پاکستان کو پوری طاقت استعمال کرنے کی ضرورت نہیں، وزیردفاع – Pakistan

طالبان رجیم کو ختم کرنے کیلئے پاکستان کو پوری طاقت استعمال کرنے کی ضرورت نہیں، وزیردفاع – Pakistan

وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک بیان میں کہا ہے کہ طالبان رجیم کو ختم …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *