برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا نے فلسطین کو ایک خودمختار اور آزاد ریاست کے طور پر باضابطہ تسلیم کر لیا ہے۔
آسٹریلوی وزیراعظم انتھونی البانیز نے اس فیصلے کا اعلان نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور مشرق وسطیٰ میں دو ریاستی حل سے متعلق ہونے والی ایک اہم عالمی کانفرنس کے دوران کیا۔ یہ اعلان برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر اور کینیڈین وزیراعظم مارک کارنی کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کے ساتھ سامنے آیا۔
وزیراعظم البانیز نے اپنے خطاب میں کہا ”آسٹریلیا فلسطینی عوام کی اپنی ریاست کے قیام کی جائز اور دیرینہ خواہشات کو تسلیم کرتا ہے۔ یہ اقدام ہمارے دو ریاستی حل کے اصولی مؤقف کی تائید ہے۔“
انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کو سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے بین الاقوامی برادری کی شرائط پوری کرنا ہوں گی، جن میں اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنا، جمہوری انتخابات کا انعقاد، مالیاتی نظم و نسق اور حکومتی اصلاحات شامل ہیں۔
آسٹریلوی اعلامیے میں قرآن کریم کی آیت ”نَصْرٌ مِّنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ“ (اللہ کی مدد اور فتح قریب ہے) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ ”ہم فلسطینیوں کی طویل اور صبرآزما جدوجہد کا خیرمقدم کرتے ہیں۔“
برطانوی اور کینیڈین قیادت نے بھی اسی مؤقف کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطین کو ریاست تسلیم کرنا امن کی طرف ایک مثبت قدم ہے اور مشرق وسطیٰ میں پائیدار استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔
اسی طرح کینیڈین وزیراعظم مارک کرنی نے بھی اعلان کیا کہ ان کے ملک نے باضابطہ طور پر فلسطین کو ریاست تسلیم کر لیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ موجودہ اسرائیلی حکومت فلسطینی ریاست کے قیام کے امکانات کو روکنے کے لیے طریقہ کار سے کام کر رہی ہے جو مغربی کنارے میں آباد کاری کی توسیع کی ایک بے لگام پالیسی پر عمل پیرا ہے جو کہ بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر قانونی ہے۔
کینیڈین وزیراعظم نے کہا کہ غزہ میں اس کے مسلسل حملے نے دسیوں ہزار شہری مارے، دس لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے، اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے قابل بنا دیا، اب یہ موجودہ اسرائیلی حکومت کی واضح پالیسی ہے کہ کوئی فلسطینی ریاست نہیں ہوگی۔
“یہ اس تناظر میں ہے کہ کینیڈا ریاست فلسطین کو تسلیم کرتا ہے اور ریاست فلسطین اور ریاست اسرائیل دونوں کے لیے پرامن مستقبل کے وعدے کی تعمیر میں اپنی شراکت کی پیشکش کرتا ہے۔
توقع کی جا رہی ہے کہ نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ایک اہم ہفتے کے آغاز سے قبل آج اتوار کو برطانیہ اور پرتگال فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کریں گے، جنرل اسمبلی میں متعدد ممالک ایسا ہی قدم اٹھانے جا رہے ہیں تاکہ غزہ کے معاملے پر اسرائیل پر دباؤ ڈالا جا سکے۔
امریکی ردعمل: ٹرمپ کی دھمکیاں
دوسری جانب امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے قریبی اتحادیوں نے اس فیصلے پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے آسٹریلیا، برطانیہ اور کینیڈا کو سزائی اقدامات کی دھمکیاں دی ہیں۔
تاہم، آسٹریلوی قیادت اس مؤقف پر قائم ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے امریکہ اور عرب لیگ دونوں کی شرکت ناگزیر ہے۔ وزیراعظم البانیز اور وزیر خارجہ پینی وونگ نے کہا کہ:
”ٹرمپ انتظامیہ امن منصوبے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے، اور امریکا و عرب لیگ کو چاہیے کہ غزہ کی تعمیر نو اور اسرائیل کی سلامتی کی ضمانت دیں۔“
اسرائیلی وزیراعظم کی تنقید
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے آسٹریلوی فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے وزیراعظم البانیز کو ”کمزور رہنما“ قرار دیتے ہوئے اس اقدام کو ”سیاسی رعایت“ کہا۔ ان کا کہنا تھا:
”یہ فیصلہ ویسا ہی ہے جیسے 1938 میں ہٹلر کو چیکوسلواکیہ پر حملے سے پہلے رعایت دی گئی تھی۔“
نیتن یاہو کے مطابق یہ فیصلہ اسرائیل کے خلاف ایک جانب دارانہ سیاسی قدم ہے جو مشرق وسطیٰ میں امن کی کوششوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
حماس نے اسرائیلی یرغمالیوں کی الوداعی تصاویر جاری کر دیں
وزیراعظم کیئر اسٹارمر کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کو غزہ میں امداد کی بحالی کی اجازت دینا ہوگی اور مغربی کنارے کو ضم نہیں کرنا ہوگا۔
غزہ میں جاری فوجی کارروائی اور انسانی بحران کے ساتھ ساتھ، مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کی توسیع کے منصوبے بھی برطانوی حکومت کے لیے باعثِ تشویش ہیں، جسے وزرا دو ریاستی حل کے خاتمے کی کوشش سمجھتے ہیں۔
جنرل اسمبلی میں برطانیہ کی نمائندگی کرنے والے برطانوی نائب وزیرِ اعظم ڈیوڈ لیمی نے کہا ہے کہ ’فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا مغربی کنارے میں جو سنگین توسیع ہو رہی ہے، بستیوں کے تشدد اور نئے منصوبوں جیسے کہ ای ون ڈیولپمنٹ، جو دو ریاستی حل کے لیے خطرناک ہے، اس کا نتیجہ ہے۔‘
دوسری جانب فرانسیسی صدر میکرون نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ٹیلیفونک رابطہ کیا جس میں فلسطین کے حوالے سے دو ریاستی کانفرنس سے متعلق بات چیت کی گئی ہے۔
صدر میکرون نے کہا ہے کہ 122 ممالک کا نیویارک اعلامیے کو اپنانا دو ریاستی حل کے لیے اہم موڑ ہے۔ ہماری کوششیں مشرق وسطیٰ میں امن، سلامتی کا راستہ نکال سکتی ہیں۔
سعودی عرب اور فرانس کل ٹو اسٹیٹ کانفرنس کی صدارت کریں گے۔ کانفرنس عالمی برداری کو مزید متحرک کرنے کا موقع فراہم کرے گی۔
قطر نے غزہ ثالثی کا عمل دوبارہ شروع کرنے کے لیے شرط رکھ دی، امریکی میڈیا کا دعویٰ
غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ بمباری جاری ہے۔ 24 گھنٹوں میں مزید 34 فلسطینی شہید اور درجنوں زخمی ہوگئے ہیں۔
عرب میڈیا کے مطابق غزہ میں شہدا کی مجموعی تعداد 65 ہزار 208 ہوگئی ہے۔
غذائی قلت سے مزید چار افراد دم توڑ گئے ہیں۔ ادھر تل ابیب میں ہزاروں اسرائیلی شہری حکومت کے خلاف سٹرکوں پر نکل آئے۔ مظاہرین نے صدر ٹرمپ سے غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
Source link