سوڈان کے شہر الفاشر پر ریپڈ سپورٹ فورس (آر ایس ایف) کے قبضے کے بعد صرف چند ہزار افراد ہی قریبی پناہ گاہ تک پہنچ سکے ہیں، جبکہ ہزاروں افراد ابھی بھی خطرے میں ہیں۔ الفاشر کے اسپتالوں میں عام شہریوں کی 460 لاشیں موجود ہیں۔ ایک امدادی تنظیم نے بتایا ہے کہ شہر میں رہ جانے والے افراد قتل و زیادتی کی خوفناک داستانیں بیان کی ہیں۔
گزشتہ ہفتے دارفور کے مغربی علاقے کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد باغی دھڑے آر ایس ایف اور سوڈانی فوج کے درمیان جاری جنگ نے شہریوں کیی زندگی اجاڑ کر رکھ دی ہے۔
الفاشر کی تباہی سوڈان کی خانہ جنگی میں ایک نئے موڑ کی علامت ہے جو اپریل 2023 میں ریپڈ سپورٹ فورس اور سوڈانی فوج کے درمیان شروع ہوئی تھی۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس جنگ میں اب تک 40 ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں، لیکن امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اصل تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہو سکتی ہے۔
اس جنگ نے 1 کروڑ 40 لاکھ سے زیادہ افراد کو بے گھر کر دیا ہے اور وبائی امراض کے پھیلاؤ نے مزید ہزاروں جانیں لے لی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی مہاجرت ایجنسی کے مطابق صرف ایک دن میں آٹھ ہزار سے زائد افراد الفاشر سے بے گھر ہوئے، تاہم، ان میں سے صرف چھ پزار ہی پناہ گاہ تک پہنچ سکے۔
ناروے کے ریفیوجی کونسل کے ڈائریکٹر شاشوت سراف کے مطابق، تقریباً ایک ہزار افراد پچھلے تین دنوں میں تولیلا کیمپ پہنچے۔ سراف نے امریکی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ”یہ تعداد بہت کم ہے، ہم نے جو ہزاروں افراد کی توقع کی تھی، وہ کہیں نظر نہیں آ رہے۔“
انہوں نے کہا کہ ”اگر لوگ ابھی الفاشر میں پھنسے ہوئے ہیں، تو زندہ رہنا ان کے لیے بہت مشکل ہوگا“۔
الفاشر سے زندہ بچ نکلنے والے لوگوں نے بتایا ہے کہ وہ فائرنگ کرنے والوں سے بچتے بچاتے پیدل چل کر پناہ گاہ کی جانب آئے۔
سراف بتاتے ہیں کہ کیمپ پہنچنے والوں کی حالت نہایت خراب ہے۔ زیادہ تر لوگ بے ہوش اور پیاسے ہیں جن کے جسم پر زخم اور تشدد کے نشانات ہیں۔ بعض افراد اپنا یا خاندان کا نام تک بھول گئے ہیں۔
سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ تقریباً 170 ایسے بچے جن کے والدین کا سراغ نہیں ملا، یہ بچے تنہا یا اپنے سے بڑے لوگوں کے ساتھ کیمپ پہنچے۔ ان میں سے اکثر کی عمر تین سال تک ہے اور وہ نہیں جانتے کہ ان کے گھر والے کہاں ہیں۔
سوڈان کے سفیر اعماد الدین مصطفیٰ عداوی نے الفاشر میں ہونے والے واقعات کو جنگی جرائم قرار دیا اور کہا کہ حکومت آر ایس ایف کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں کرے گی۔ انہوں نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ آر ایس ایف کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا جائے۔
اعماد الدین نے متحدہ عرب امارات پر الزام عائد کیا کہ وہ اس گروپ کو اسلحہ فراہم کر رہی ہے، حالانکہ امارات نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
ادھر متحدہ عرب امارات کے سفارتی نمائندے انور گرگاش نے مذاکرات اور ثالثی کے لیے جنگ میں تین ماہ کے وقفے کی حمایت کا عندیہ دیا، لیکن انہوں نے براہِ راست تسلیم نہیں کیا کہ امارات آر ایس ایف کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
مبصرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ آر ایس ایف پورے دارفور پر قبضے کے بعد اپنی فوجی کارروائیوں کو ملک کے وسطی علاقوں کی طرف بڑھائے گی۔
Source link
The Republic News News for Everyone | News Aggregator