سینیٹ اور قومی اسمبلی کی مشترکہ کمیٹی نے 27 ویں آئینی ترمیم پر اپنی سفارشات کو حتمی شکل دے دی، سفارشات کل ایوان بالا میں پیش کی جائیں گی جب کہ آئین کے آرٹیکل 243 میں ترمیم سمیت صدر کے استثنیٰ کو بھی منظور کرلیا گیا۔
اتوار کو سینیٹ اور قومی اسمبلی کی مشترکہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس فاروق ایچ نائیک اور محمود بشیر ورک کی سربراہی میں ہوا۔ جس میں اپوزیشن کے علاوہ تمام پارلیمانی جماعتوں کے نمائندے شریک ہوئے۔
اجلاس میں سینیٹر طاہر خلیل سندھو، سینیٹر ہدایت اللہ، سینیٹر شہادت اعوان، سینیٹر ضمیر حسین گھمرو، علی حیدر گیلانی، سائرہ افضل تارڑ، بلال اظہر کیانی، سید نوید قمر اور ابرار شاہ کمیٹی اجلاس میں شریک ہوئے۔ اس کے علاوہ سیکرٹری وزارت قانون و انصاف راجہ نعیم اکبر اور دیگر افسران بھی اجلاس میں موجود تھے۔
مشترکہ پارلیمانی کمٹی نے تفصیلی مشاورت کے بعد آئین کے آرٹیکل 243 میں ترامیم کی منظوری دے دی، یہ فیصلہ آرٹیکل پر تفصیلی مشاورت کے بعد کیا گیا ہے اور اس کے تحت آئینی عدالتوں کے قیام اور دیگر اہم شقوں پر بھی اتفاق ہو گیا ہے۔
اس کے علاوہ صدر کے تاحیات استثنیٰ کی شق بھی منظور کرلی گئی۔ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کا صوبے کے نام کی تبدیلی کا معاملہ مؤخر کردیا گیا۔ بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کا صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد اضافے کا معاملہ پی ایم ہاوس میں زیر غور آئے گا جب کہ اجلاس میں ایم کیو ایم کا بلدیاتی انتخابات کو آئینی کور دینے کا مطالبہ تسلیم کرلیا گیا۔
پارلمانی کمیٹی نے وفاقی آئینی عدالتوں کے قیام کی شق کی منظوری دے دی، کمیٹی نے زیرالتوا مقدمات کے فیصلے کی مدت کو 6 ماہ سے بڑھا کر ایک سال کرنے کی ترمیم بھی منظور کر لی ہے۔ اس کے مطابق اگر مقدمے کی پیروی ایک سال تک نہ کی گئی تو اسے نمٹا ہوا تصور کیا جائے گا۔
آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی تقرری صدر مملکت کریں گے۔ آئینی عدالت 7 ججز پر مشتمل ہو گی، آئین میں ترمیم منظور ہوگئی، جب کہ آئینی عدالت کا سربراہ باقی ججوں کی نامزدگی خود کرے گا۔
قائمہ کمیٹی نے ججز کی ٹرانسفر کے حوالے سے آئینی ترمیم کی منظوری بھی دے دی۔ جو جج ٹرانسفر پر رضامند نہیں ہو گا اسے ریٹائرڈ تصور کیا جائے گا، ریٹائرڈ شدہ جج کو مراعات اور پنشن دی جائے گی۔
مشترکہ کمیٹی نے 27 ویں آئینی ترمیم کے مسودے کی حتمی منظوری دے دی جب کہ حکومتی اتحادی جماعتوں کی تجاویز پر کمیٹی اجلاس فیصلہ نہ کر سکی۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے چیئرمین فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ترامیم کے بعد بنیادی مسودے کی منظوری دے دی گئی ہے، ایک دو ترامیم پر مجھے اور وزیرقانون کو تبدیلی کا اختیار دیا گیا، کہا گیا ہے کہ آپ چاہیں تو ان میں تبدیلی کرسکتے ہیں،
صحافی کے صدر زرداری سے متعلق سوال پر فاروق ایچ نائیک نےکہا کہ ابھی تو ترمیم پاس نہیں ہوئی، آپ کیوں ناراض ہورہے ہیں۔
دوسری جانب مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے آئینی ترمیم کا بنیادی مجوزہ ڈرافٹ منظور کرلیا ہے۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے آئینی ترمیم کا بنیادی مجوزہ ڈرافٹ پر اتفاق کیا ہے۔
اجلاس میں نماز مغرب کا کیا گیا ہے کہ اور وقفے کے بعد صدارتی استثنیٰ اور اتحادیوں کی تجاویز پر حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔
صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ 27 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے بل میں شامل شقوں پر کام تقریباً مکمل ہوگیا ہے کچھ تجاویز جو بعد میں آئیں ان پربات چیت جاری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ خیبرپختونخوا کے صوبے کے نام کی تبدیلی بارے کچھ بات ہوئی ہے، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور بلوچستان عوامی پارٹی کی تجاویز پر اب غور کیا جا رہا ہے، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور بی اے پی کی تجاویز پر اپنی اپنی قیادت سے بات ہوگی اور وقفہ اس لیے ہی کیا گیا ہے سیاسی جماعتیں اپنی قیادت سے بات کر لیں۔
خیال رہے کہ آئین میں ترمیم کے لیے دونوں ایوانوں سے الگ الگ دو تہائی اکثریتی حمایت درکار ہو گی۔ اس وقت آئینی ترمیم کے لیے سینیٹ سے 64 اور قومی اسمبلی سے 224 ارکان کے ووٹ درکار ہوں گے۔ سینٹ میں اپوزیشن بینچز پر30 ارکان موجود ہیں جو ممکنہ طور پر آئینی ترمیم کی مخالفت کریں گے۔
Source link
The Republic News News for Everyone | News Aggregator