مقبوضہ کشمیر کا علاقہ لداخ ایک بار پھر سخت کشیدگی کی زد میں ہے۔ بدھ کو ہونے والے پُرتشدد مظاہروں کے بعد جمعرات کو بھارتی حکام نے لیہ اور کارگل میں سخت سیکورٹی اقدامات نافذ کر دیے ہیں۔ ان مظاہروں میں پولیس کے تشدد سے چار افراد جان سے گئے اور درجنوں زخمی ہوئے۔
پولیس نے دونوں اضلاع میں پانچ سے زیادہ افراد کے جمع ہونے پر پابندی لگا دی ہے۔ لیہ میں کرفیو نافذ ہے اور پولیس کے ساتھ نیم فوجی دستے بھی بڑی تعداد میں گشت کر رہے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ بدھ کی رات کم از کم 40 مظاہرین کو گرفتار بھی کیا گیا۔
یہ جھڑپ اس وقت شروع ہوئی جب مظاہرین نے ریلی نکالنے کی کوشش کی اور پولیس نے انہیں روکنے کے لیے طاقت استعمال کی۔ مشتعل مظاہرین نے پولیس اور نیم فوجی اہلکاروں کی گاڑیوں کو آگ لگا دی، بی جے پی کے دفتر سمیت کئی سرکاری عمارتوں کو نذر آتش کر دیا۔ پولیس نے گولیاں چلائیں، آنسو گیس پھینکی اور لاٹھی چارج کیا، جس کے نتیجے میں چار لوگ ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔
اس احتجاج کا تعلق 2019 کے اس فیصلے سے ہے جب نئی دہلی نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے لداخ کو ایک الگ وفاقی علاقہ بنا دیا۔ ابتدا میں مقامی لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا لیکن جلد ہی خدشات بڑھنے لگے کہ زمینیں چھین لی جائیں گی، تجارت تباہ ہوگی اور بلند پہاڑی صحراؤں کا نازک ماحول مزید خراب ہوگا۔
جمعرات کو کارگل میں حالات بالکل مختلف نظر آئے۔ مقامی تنظیموں کی اپیل پر لوگ ہڑتال میں شریک ہوئے، دکانیں اور کاروبار بند رہے۔
سجاد کارگلی نامی مقامی رہنما نے حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ طاقت کے بجائے دانشمندی کا مظاہرہ کرے، فوری مذاکرات دوبارہ شروع کرے اور عوام کے مطالبات کو سنجیدگی سے لے۔
لداخ کے لیفٹیننٹ گورنر کویندر گپتا نے مظاہروں میں ہونے والی ہلاکتوں کو افسوسناک اور دل دہلا دینے والا واقعہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مزید نقصان سے بچنے کے لیے کرفیو لگایا گیا ہے۔
لداخ کے نمائندے بھارتی حکومت سے کئی بار مذاکرات کر چکے ہیں لیکن کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ اب 6 اکتوبر کو ایک اور ملاقات طے ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ کارگل کی زیادہ تر آبادی مسلمان ہے، جبکہ لیہ میں زیادہ تر بدھ مت کے پیروکار بستے ہیں۔ یہ علاقہ پہلے ہی سرحدی تنازعات اور موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے دوچار ہے۔ یہاں کے ہزاروں گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں، جس سے لاکھوں افراد کے لیے پانی کی قلت پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ بھارت اور چین کے درمیان 2020 سے جاری فوجی کشیدگی اور علاقے کی فوجی سرگرمیوں نے حالات مزید سنگین کر دیے ہیں۔
مبصرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر نئی دہلی نے عوامی مطالبات کو نظر انداز کیا تو لداخ میں حالات مزید بگڑ سکتے ہیں اور یہ حساس خطہ ایک بڑے بحران میں داخل ہو سکتا ہے۔
Source link
The Republic News News for Everyone | News Aggregator