دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت اب صرف ٹیکنالوجی ہی نہیں بلکہ طاقت، اثر ورسوخ اور مستقبل کی سمت طے کرنے کا ہتھیار بن چکی ہے۔ اس میدان میں اس وقت امریکا کی بالادستی ہے، مگر چین پورے عزم اور منصوبہ بندی کے ساتھ اس حکمرانی کو چیلنج دینے کے لیے منصوبہ بندی کررہا ہے۔
چین نے 2017 میں ایک منصوبے کا اعلان کیا تھا جس کے مطابق 2030 تک مصنوعی ذہانت کے میدان کی سب سے بڑی طاقت بننے کا عزم ظاہر کیا گیا تھا۔ اس ہدف کے لیے چینی حکومت نے تعلیم، تحقیق، صنعت، دفاع اور نجی شعبے میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری شروع کر رکھی ہے۔
ماہرین کے مطابق صرف 2025 میں چین کی اس میدان میں مجموعی سرمایہ کاری 100 ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر سکتی ہے۔
ڈی ڈبلیو اردو کی رپورٹ کے مطابق چین کی سب سے بڑی طاقت اس کی آبادی اور ڈیجیٹل ڈیٹا ہے۔ یعنی ایک ارب سے زائد انٹرنیٹ صارفین کے ساتھ، چین کے پاس وہ خام مواد موجود ہے جس پر مصنوعی ذہانت کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔
اسی وجہ سے چینی کمپنیاں جیسے بائیڈو، علی بابا اور ٹینسینٹ تیزی سے ایسے اے آئی ماڈلز تیار کر رہی ہیں جو کم لاگت میں بہترین کارکردگی فراہم کر سکیں۔
اس کی ایک مثال چینی کمپنی ڈیپ سیک کا اے آئی ماڈل ہے جو کارکردگی میں مغربی کمپنیوں کے ماڈلز کے ہم پلہ ہے، مگر اس کی لاگت ان کے مقابلے میں کہیں کم ہے۔ یہ ماڈل نسبتاً کم طاقت والے کمپیوٹرز پر بھی چل سکتا ہے، جو چین کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے۔ خاص طور پر اُس وقت جب امریکا نے چین پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
امریکا نے چین کو جدید سیمی کنڈکٹرز (چِپس) کی فراہمی پر سخت پابندیاں عائد کی ہیں۔ ان پابندیوں کا مقصد چین کی ترقی کی رفتار کو کم کرنا ہے، مگر چین نے تمام تر چیلنجز کے باوجود ہر ممکن اقدامات کررہا ہے۔
بیجنگ حکومت نے مقامی چِپ انڈسٹری کے فروغ پر زور دیا ہے، اور کئی چینی کمپنیوں نے متبادل ذرائع تیار کرنا شروع کر دیے ہیں جو کم جدید مگر مؤثر ہیں۔
چین مقامی سطح پر علی بابا، ہواوے اور ٹینسینٹ جیسے ادارے افریقہ، ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ میں اے آئی انفراسٹرکچر اور ڈیٹا سینٹرز قائم کر رہے ہیں۔
یہ صرف کاروباری توسیع نہیں بلکہ ایک طرح کی ”ڈیجیٹل سفارت کاری“ بھی ہے، جس کے ذریعے چین عالمی سطح پر اپنا بیانیہ اور طرزِ حکمرانی مضبوط کر رہا ہے۔
چین نے مقامی طور پر تحقیق اور تربیت کے ساتھ ساتھ اپنی ٹیکنالوجی عالمی سطح پر بھی پھیلا رہا ہے۔ علی بابا، ہواوے اور ٹینسینٹ جیسے ادارے افریقا، ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ میں اے آئی انفراسٹرکچر اور ڈیٹا سینٹرز قائم کر رہے ہیں۔
یہ صرف کاروباری توسیع نہیں بلکہ ایک طرح کی ”ڈیجیٹل سفارت کاری“ بھی ہے، جس کے ذریعے چین عالمی سطح پر اس میدان میں اپنی گرفت مضبوط کر رہا ہے۔
چین نے مختصر عرصے میں نمایاں ترقی کی ہے لیکن امریکا اب بھی بنیادی تحقیق اور جدید ترین ٹیکنالوجی میں آگے ہے۔ امریکی ماڈلز زیادہ طاقتور، محفوظ اور وسیع تربیت یافتہ ہیں جبکہ چین کو اب بھی چِپ ٹیکنالوجی اور فنڈنگ جیسی مشکلات کا سامنا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اس دوڑ میں آنے والے پانچ سال فیصلہ کن ہوں گے۔ اگر چین مقامی سطح پر چِپس کی پیداوار میں خود کفیل ہو جاتا ہے، تو وہ مصنوعی ذہانت کے عالمی منظرنامے کو بدل سکتا ہے۔
تاہم فی الحال امریکا سائنسی تحقیق، ایجادات اور عالمی اعتماد میں اپنی برتری برقرار رکھے ہوئے ہے۔
Source link