امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پینٹاگون کو 33 سال بعد اپنے جوہری اثاثے جانچنے کے لیے نئے نیوکلیئر ٹیسٹ شروع کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ان کے اس اعلان نے عالمی سطح پر ہلچل مچا دی ہے۔ جس کے بعد روس نے بھی دھمکی دی ہے کہ اگر امریکا نئے نیوکلیئر ٹیسٹ کرتا ہے تو جواب میں ہم بھی جوہری دھماکے کریں گے۔
اس وقت دنیا میں نو نیوکلیئر طاقتیں ہیں، جن میں امریکا، روس، چین برطانیہ، فرانس، اسرائیل، بھارت، پاکستان اور شمالی کوریا شامل ہیں۔ دنیا کی دو سب سے بڑی نیوکلیئر طاقتوں کے درمیان جوہری تجربات کی اس نئی دوڑ نے دیگر نیوکلیئر طاقتوں کے درمیان مقابلے کا موقع پیدا کردیا ہے۔
بھارتی میڈیا میں امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگر امریکا اور روس نئے جوہری تجربات کرتے ہیں تو بھارت اس ریس میں لازمی شامل ہوگا۔ بھارتی میڈیا نے اس کی وجہ دو جوہری طاقتوں چین اور پاکستان سے خطرہ بتائی ہے۔
جس کے بعد سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر امریکا نیوکلیئر ٹیسٹ کرتا ہے تو اس کا جنوبی ایشیا خصوصاً پاکستان پر کیا اثر پڑے گا۔
ویسے تو امریکا میں اعلیٰ سطحی حکام نے واضح کیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے نیوکلیئر ٹیسٹ کے حوالے سے جو ہدایات دی ہیں وہ اصل دھماکے نہیں بلکہ سسٹمز کی جانچ اور سیمولیشنز کے ذریعے صلاحیتوں کی پڑتال تک محدود رہ سکتی ہیں۔ تاہم، ٹرمپ نے اس امکان کو بھی رد نہیں کیا کہ یہ حقیقی زیرِ زمین تجربات بھی ہوسکتے ہیں۔
یعنی صورتحال ابھی غیریقینی ہے۔ مگر اس طرح کے بیانات عالمی امن معاہدوں اور جوہری عدم پھیلاؤ کے نظام پر دباؤ بڑھا سکتے ہیں۔
امریکا نے اپنا سُپر نیوکلئیر ہتھیار بنانے کا طریقہ کار کھو دیا
ممکن ہے کہ بڑی نیوکلیئر طاقتوں کے ان بیانات کو دنیا ایک خطرناک سیاسی پیغام کے طور پر لے اور دیگر جوہری طاقتیں جواباً کچھ سخت قدم اٹھانے پر مجبور ہوجائیں۔
البتہ ماہرین کہتے ہیں کہ حقیقی نیوکلیئر تجربات کی طرف واپس جانا آسان نہیں ہے۔ اس کے لیے بڑی تیاری کی ضرورت ہے، سیاسی قیمت چکانا ہوگی اور بین الاقوامی دباؤ جھیلنا ہوگا۔
پاکستان نے خفیہ تیاری کے بعد 1998 میں کھلے عام جوہری دھماکے کیے تھے، مگر اس کے بعد اس نے سیاسی اور عسکری رویوں کے ذریعے توازن برقرار رکھا۔
پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت نے ماضی میں قومی حفاظت اور جوہری توازن کو اپنی اولین ترجیح بنایا ہے۔ اگر عالمی سطح پر جوہری تجربات کا سلسلہ شروع ہوا یا بھارت کی طرف سے کوئی نئی ٹیسٹنگ ہوئی تو پاکستان کے پاس چار بنیادی آپشنز رہیں گے:
(1) سفارتی احتجاج اور بین الاقوامی فورمز پر مسئلے کو اٹھانا
(2) نظروں میں آئے بنا اپنے جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور جانچ کو مزید مضبوط کرنا
(3) دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانا اور جوہری توازن برقرار رکھنے کے لیے اپنے ردِ عمل کے امکانات دشمن کو ظاہر کرنا
(4) اور علاقائی امن و استحکام کے لیے بین الاقوامی دباؤ اور ثالثی کی کوششیں تیز کرنا۔
بھارت کا کوئی بھی کھلا جوہری دھماکا جنوبی ایشیا میں شدید کشیدگی پیدا کرے گا۔
بھارت کے لیے اس کے ممکنہ نتائج میں فوری سفارتی اور سیاسی مذمّت، حریف ممالک کی جانب سے عسکری سطح پر خطرے کے مطابق ردِ عمل (بیانات اور جوہری صلاحیتوں کی مشقیں)، اور بین الاقوامی سطح پر پابندیوں کی کوششیں شامل ہوسکتی ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اشتعال انگیز اقدامات سے احتراز ہی سب سے بہتر حربہ ہوگا۔
بین الاقوامی تجزیہ کاروں اور اداروں کے مطابق گزشتہ برسوں میں پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے اسٹاک میں اضافہ ہوا ہے۔ بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس کے مطابق پاکستان کے پاس تقریباً 160 سے 180 تک نیوکلیئر وار ہیڈز موجود ہیں، جن کی تعداد 2030 تک 200 تک جاسکتی ہے۔ ان کی تیاری میں ہائی اینرچڈ یورینیم (ایچ ای یو) کا کردار مستحکم سمجھا جاتا ہے۔
یہ اعداد و شمار عام طور پر آزاد ذرائع اور تجزیاتی رپورٹوں پر مبنی ہیں، سرکاری طور پر ممالک اس قسم کی معلومات عموماً خفیہ رکھتے ہیں۔
امریکا کے کھوئے ہوئے نیوکلئیر بموں سے دنیا خطرے میں
پاکستان نے اپنی پچھلی کامیابیوں (خصوصاً 1998 کے جوہری دھماکوں) کے بعد کبھی بھی سرکاری طور پر ہائیڈروجن بم کا اعلان نہیں کیا۔ تجزیاتی رپورٹس یہ بتاتی ہیں کہ پاکستان کے موجودہ ڈیزائنز عموماً ایچ ای یو پر مبنی ہیں۔
ہائیڈروجن بم بنانا تکنیکی طور پر زیادہ پیچیدہ، مہنگا اور سیاسی طور پر خطرناک ہے۔ پاکستان کی طرف سے کھلے عام ہائیڈروجن بم کی تیاری یا اس کا اعلان فی الحال منظرِ عام پر نہیں آیا۔
البتہ پاکستان نے اپنی ایٹمی صلاحیتوں کو مضبوط رکھا ہے اور ممکنہ طور پر ضرورت پڑنے پر ملکی عسکری حکمت عملیوں میں تبدیلی کی جاسکتی ہے۔
دنیا میں نئے جوہری تجربات کی دوڑ ایک حساس اور خطرناک موضوع ہے۔
دنیا میں جوہری تجربات یا بیانات سے سیاسی اور فوجی ردِ عمل جنم لے سکتے ہیں، اور یہ خطے کے معمولی جھگڑوں کو بڑے تنازعات میں بدل سکتے ہیں۔
بہتر راستہ یہی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر ڈپلومیسی، جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدات اور اعتماد سازی کے طریقے مضبوط کیے جائیں تاکہ ایک نئی جوہری دوڑ کو ٹالا جا سکے۔
Source link
The Republic News News for Everyone | News Aggregator