امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پھر دعویٰ کیا ہے کہ سعودی عرب جلد ابراہم معاہدے میں شامل ہوسکتا ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے سی بی ایس کے معروف پروگرام ’سِکسٹی منٹس‘ کے اتوار کے روز نشر ہونے والے تفصیلی انٹرویو میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ انہیں پورا یقین ہے کہ سعودی عرب اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کے لیے تیار ہے۔
انٹرویو کے دوران میزبان نے صدر ٹرمپ سے سوال کیا ’ولی عہد کہہ چکے ہیں کہ وہ دو ریاستی حل کے بغیر ابراہم معاہدوں میں شامل نہیں ہوں گے، کیا آپ کو یقین ہے؟‘
امریکی صدر نے جواب دیا ’نہیں، میں سمجھتا ہوں وہ شامل ہوں گے۔ میرا خیال ہے ہم کوئی حل نکال لیں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ دو ریاستی حل ہوگا یا نہیں، یہ اسرائیل، دیگر فریقوں اور مجھ پر منحصر ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اگر ایران کے پاس جوہری طاقت ہوتی تو کسی بھی قسم کا معاہدہ ممکن نہ تھا۔‘
ٹرمپ نے اپنی گفتگو کے دوران بظاہر ایران کے جوہری پروگرام اور غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امن کے لیے ایران کو جوہری ہتھیاروں سے روکنا ضروری ہے۔
نیویارک سٹی مئیر انتخاب: ٹرمپ کی ظہران ممدانی کی جیت پر شہر کے فنڈز روکنے کی دھمکی
الجزیرہ نے وائٹ ہاؤس کے ایک عہدیدار کے حوالے سے تصدیق کی کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان 18 نومبر کو واشنگٹن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے سرکاری ورکنگ میٹنگ کریں گے۔
ملاقات کا مقصد دونوں ممالک کے تعلقات اور مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال پر بات چیت ہے۔ اس دورے کے موقع پر امریکا اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدے کے حوالے سے بھی پیش رفت متوقع ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنی پہلی مدتِ صدارت میں 2020 میں متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے معاہدے کروائے تھے۔
تاہم سعودی عرب کا مؤقف ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک فلسطین کے لیے ایک آزاد ریاست کے قیام کا واضح لائحۂ عمل طے نہ ہو جائے۔
محمد بن سلمان کا یہ دورہ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب صدر ٹرمپ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کو ابراہم معاہدوں میں شامل ہونے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
Source link
The Republic News News for Everyone | News Aggregator