وزیراعظم شہبازشریف نے مجوزہ آئینی ترمیم کے تناظر میں اہم فیصلہ کرتے ہوئے تمام وزراء اور حکومتی ارکانِ پارلیمنٹ کے غیرملکی دورے منسوخ کر دیے ہیں۔ ہدایت میں تمام وزراء اور ارکانِ پارلیمنٹ کو اسلام آباد میں موجود رہنے کا کہا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم پر پارلیمانی مشاورت کے عمل کو یقینی بنانے کے لیے کابینہ ارکان کو ملک میں موجود رہنے کی ہدایت جاری کر دی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے تمام وفاقی وزراء، وزرائے مملکت اور ارکان پارلیمنٹ کے غیرملکی دورے فوری طور پر منسوخ کر دیے ہیں۔ وزیراعظم کی جانب سے واضح ہدایت دی گئی ہے کہ تمام اراکین اسلام آباد میں موجود رہیں تاکہ آئینی ترمیم کے سلسلے میں پارلیمانی کارروائی میں بھرپور شرکت یقینی بنائی جا سکے۔
ذرائع کے مطابق یہ پابندی صرف آئینی ترمیم کی منظوری کے مرحلے تک برقرار رہے گی۔ تاہم کسی انتہائی ناگزیر صورتِ حال یا قومی مفاد کے تحت مجوزہ دورہ صرف وزیراعظم کی تحریری اجازت سے کیا جا سکے گا۔
دوسری جانب وفاقی حکومت اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کے لیے رابطے تیز کر چکی ہے۔ اسی سلسلے میں ایم کیو ایم پاکستان کا وفد آج وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کرے گا۔
ذرائع کے مطابق ملاقات شام 4 بجے وزیراعظم ہاؤس میں ہوگی، جس میں وزیراعظم ایم کیو ایم کو آئینی ترمیم کے معاملے پر اعتماد میں لیں گے جبکہ ایم کیو ایم اپنے تحفظات اور تجاویز سے وزیراعظم کو آگاہ کرے گی۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ملاقات میں 27ویں آئینی ترمیم کا ڈرافٹ بھی ایم کیو ایم کو فراہم کیا جائے گا۔
ستائیسویں آئینی ترمیم کے معاملے پر نمبر گیم دلچسپ مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ حکومت نے اپوزیشن جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کو مائنس کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کو ساتھ ملا لیا ہے۔ اگر پیپلز پارٹی نے بھی حمایت کا اعلان کر دیا تو آئینی ترمیم کی منظوری میں کوئی بڑی رکاوٹ باقی نہیں رہے گی۔
ستائیس ویں آئینی ترمیم جمعے کو سینیٹ میں پیش کیے جانے کا امکان ہے، جبکہ حکومت نے دس نومبر کو یہ ترمیم منظور کرانے کی منصوبہ بندی کرلی ہے۔ وزیراعظم آئندہ دو روز تک اتحادیوں کو اعتماد میں لیں گے۔
حکومت نے ستائیسویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے جو جامع روڈ میپ تیار کیا ہے، اس کے تحت ترمیمی بل کو سیاسی اتفاق رائے کے ساتھ منظور کرانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔
حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ترمیم کے مسودے پر اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لیا جائے گا اور ایک مشترکہ کمیٹی تشکیل دی جائے گی، جو تمام تجاویز کو حتمی شکل دے کر ترمیمی بل کو سینیٹ اور قومی اسمبلی میں پیش کرے گی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ابتدائی مسودہ رواں ہفتے سینیٹ میں پیش کیے جانے کا امکان ہے، جبکہ وسط نومبر تک ترمیم کو منظوری کے لیے پارلیمان سے منظور کرانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
ترمیمی پیکج میں کئی اہم نکات شامل ہیں جن میں ایگزیکٹو مجسٹریسی کی بحالی، این ایف سی ایوارڈ میں ممکنہ تبدیلیاں، آرٹیکل 243 میں ترمیم، اور سیکورٹی معاملات میں فیصلہ سازی کے عمل کو واضح اور مربوط کرنا شامل ہے۔
ذرائع کے مطابق ترمیم میں لوکل باڈیز انتخابات کے طریقہ کار سے متعلق تبدیلیاں، چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے طریقہ کار اور نگران حکومتوں کی مدت سے متعلق نکات بھی شامل کیے گئے ہیں۔
علاوہ ازیں، آئینی عدالت کے قیام کا تصور بھی ترمیمی پیکج کا حصہ ہے، جس کا مقصد آئینی تنازعات کو جلد اور مؤثر انداز میں حل کرنا بتایا جا رہا ہے۔
پارلیمانی ذرائع کا کہنا ہے کہ ترمیمی عمل میں سینیٹ، قومی اسمبلی اور متعلقہ قائمہ کمیٹیوں میں تفصیلی مباحثے کرائے جائیں گے تاکہ تمام جماعتوں کا اتفاق رائے حاصل کیا جا سکے۔
ذرائع کے مطابق حکومت نے ترمیم کی منظوری کے لیے سینیٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کا واضح لائحہ عمل تیار کر لیا ہے۔
سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کے اس وقت 20 سینیٹرز موجود ہیں، جبکہ حافظ عبدالکریم کی شمولیت سے یہ تعداد 21 ہو جائے گی۔
بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے چار، ایم کیو ایم کے تین، نیشنل پارٹی اور ق لیگ کے ایک ایک سینیٹر بھی حکومت کے پلڑے میں وزن ڈالیں گے۔
ذرائع کے مطابق آزاد سینیٹرز جن میں محسن نقوی، فیصل واوڈا، محمد عبدالقادر، انوار الحق کاکڑ، نسیمہ احسان اور اسد قاسم شامل ہیں، وہ بھی ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالنے پر آمادہ ہیں۔
اسی دوران تین ارکان والی اے این پی نے بھی باضابطہ طور پر حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔
تاہم حکومت کو دو تہائی اکثریت کے لیے اب بھی پیپلز پارٹی کی حمایت درکار ہے۔
اگر چھبیس ارکان والی پیپلز پارٹی نے بھی ترمیم کے حق میں ووٹ دے دیا تو حکومت بغیر جے یو آئی کے تعاون کے یہ ترمیم باآسانی منظور کروا سکتی ہے۔
27 ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ کا معاملہ ہے، فوج کو سیاست سے دور رکھا جائے: ترجمان پاک فوج
تحریک تحفظِ آئین پاکستان نے اس ترمیم کو مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے۔ تنظیم کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ”یہ ترمیم نیا پنڈورا باکس کھولنے کے مترادف ہے۔ عوام کو کچھ اور دکھایا جا رہا ہے مگر پسِ پردہ کچھ اور چل رہا ہے۔“
نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ستائیسویں آئینی ترمیم کہیں سے ”پیراشوٹ“ ہو کر نہیں آئی بلکہ حکومت خود یہ ترمیم پیش کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ”ہم چاہتے ہیں کہ پہلے سینیٹ میں ترمیم پیش کی جائے۔ میں سینیٹر علی ظفر صاحب کو یقین دلاتا ہوں کہ اس پر مکمل بحث ہوگی۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ ایک نکتے پر اتفاق ہو چکا ہے اور اب دوسرے اتحادیوں کو اعتماد میں لینا ہے۔“
اسی دوران وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی نے اسلام آباد میں محمود اچکزئی سے ملاقات کی، جس میں ستائیسویں ترمیم سمیت قومی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ملاقات میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ این ایف سی ایوارڈ میں مزید چھیڑچھاڑ قومی وحدت کے لیے نقصان دہ ہوگی۔
Source link
The Republic News News for Everyone | News Aggregator