پارلیمانی کمیٹی میں آئینی عدالت کے قیام کی ترمیم منظور، اتحادیوں نے اپنی تجاویز پیش کردیں – Pakistan

پارلیمنٹ کی قانون و انصاف کی مشترکہ کمیٹی نے وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی منظوری دے دی ہے۔ ذرائع کے مطابق کمیٹی نے اجلاس کے دوران کئی اہم آئینی ترامیم کی منظوری دی جن میں ججز کی تقرری، ٹرانسفر اور زیرِ التواء مقدمات کے جلد فیصلے سے متعلق شقیں شامل ہیں۔

ذرائع کے مطابق نئی آئینی عدالت سات ججز پر مشتمل ہوگی، جس کے چیف جسٹس کی تقرری صدرِ مملکت کریں گے۔ عدالت کا سربراہ باقی ججز کی نامزدگی خود کرے گا۔

کمیٹی نے ججز کی ٹرانسفر سے متعلق ترمیم بھی منظور کر لی ہے۔ ترمیم کے مطابق اگر کوئی جج ٹرانسفر پر رضا مند نہ ہو تو اُسے ریٹائرڈ تصور کیا جائے گا، تاہم ریٹائرڈ جج کو تمام مراعات اور پنشن دی جائے گی۔

اجلاس کے دوران حکومتی اتحادی جماعتوں نے مزید تین ترامیم بھی پیش کیں۔ ان میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی تجاویز شامل تھیں۔

ذرائع کے مطابق کمیٹی نے ایک اہم ترمیم منظور کی جس کے تحت زیرِ التواء مقدمات کو ایک سال کے اندر نمٹانے کی پابندی عائد کی گئی ہے۔

ترمیم کے مطابق اگر کسی مقدمے میں ایک سال تک کوئی پیروی نہیں کی جاتی تو وہ مقدمہ خودبخود نمٹا دیا جائے گا۔

اے این پی نے ایک تجویز پیش کی کہ صوبے کا نام “پختونخوا” رکھا جائے کیونکہ خیبر ایک ضلع ہے اور ضلع کے ساتھ صوبے کا نام لکھنا درست روایت نہیں۔

ایم کیو ایم کی جانب سے بلدیاتی نمائندوں کو براہِ راست فنڈز دینے سے متعلق ترمیم پیش کی گئی، جس پر کمیٹی میں اتفاق رائے ہو گیا۔

دوسری جانب بلوچستان اسمبلی کی نشستیں بڑھانے کی تجویز پر اتحادی جماعتوں میں مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔

ذرائع کے مطابق کمیٹی کی سفارشات کو جلد سینٹ میں پیش کیا جائے گا، جہاں سے ستائیسویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد یہ مجوزہ ترامیم آئین کا حصہ بن سکتی ہیں۔

آئین میں 27ویں ترمیم کے معاملے میں اہم پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے۔ ذرائع کے مطابق صدر کے تاحیات استثنا کے بارے میں معاملہ ابھی زیر غور ہے، جبکہ وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر سینیٹر انوشہ رحمان نے اپنی جانب سے پیش کردہ ترمیم واپس لے لی ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے سماجی رابطے کی سائٹ ”ایکس“ پر جاری پوسٹ میں کہا کہ ”آذربائیجان سے واپسی پر مجھے بتایا گیا ہے کہ میری پارٹی کے چند سینیٹرز نے وزیراعظم کے استثنا کے حوالے سے ترمیمی شق سینیٹ میں پیش کی جو کابینہ سے منظور شدہ مسودے میں شامل نہیں تھی۔“

وزیراعظم نے کہا کہ ”معزز سینیٹرز کے خلوص کا شکریہ ادا کرتے ہوئے، میں نے انہیں یہ ترمیم فی الفور واپس لینے کی ہدایت کی ہے۔ منتخب وزیراعظم یقیناً قانون اور عوام کی عدالت میں جوابدہ ہے۔“

چیئرمین کمیٹی فاروق ایچ نائیک نے بھی اس اقدام کو سراہا اور کہا کہ کمیٹی کے فیصلوں میں یہ مثبت پیش رفت ہے۔ اس وقت سینٹ اور قومی اسمبلی کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی اجلاس میں آئینی ترامیم پر شق بہ شق غور کر رہی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ کمیٹی کی رپورٹ کل سینیٹ میں پیش کی جائے گی اور امکان ہے کہ اسی دن ستائیسویں آئینی ترمیم کی منظوری بھی دی جا سکتی ہے۔ دونوں ایوانوں کی قائمہ کمیٹیاں تمام شقوں پر حتمی غور و فکر کر رہی ہیں تاکہ ترمیم کے تمام نکات ایوان میں مکمل وضاحت کے ساتھ پیش کیے جائیں۔

سینیٹ کی قانون و انصاف کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا ہے کہ ستائیسویں آئینی ترمیم کے بل کو آج حتمی شکل دے دی جائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ بل پر تمام سیاسی جماعتوں کی آراء لی جا رہی ہیں، اور فیصلہ اکثریتی رائے کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ فاروق نائیک کے مطابق انہیں امید ہے کہ معاملہ شام پانچ بجے تک فائنل کر لیا جائے گا۔

اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ آج اجلاس میں بل کی تمام شقوں پر تفصیلی غور کیا جائے گا۔ ہر جماعت کو اپنی رائے دینے کا پورا حق حاصل ہے، ن لیگ اور ایم کیو ایم کی تجاویز کو بھی دیکھا جائے گا، اور تمام فیصلے بعد ازاں ایوان میں پیش کیے جائیں گے۔

قانون و انصاف کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹیوں کا اجلاس اسلام آباد میں ان کیمرہ جاری ہے جس کی صدارت سینیٹر فاروق ایچ نائیک اور چوہدری محمود بشیر ورک کر رہے ہیں۔ اجلاس میں آئینی ترمیم کے مسودے پر شق بہ شق بحث کی جا رہی ہے، جبکہ کمیٹی ارکان بل کی مکمل جانچ پڑتال کر رہے ہیں۔

دوسری جانب پارلیمانی کمیٹی کے اراکین نے اپوزیشن کی عدم شرکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کو اس اہم اجلاس میں شرکت کرنی چاہیے تھی، اپوزیشن کا رویہ انتہائی افسوسناک ہے، اپوزیشن جان بوجھ کر سارے عمل سے دور رہی۔

کمیٹی اراکین کا کہنا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی خلوص نیت سے اپنا کام مکمل کرےگی، 27ویں ترمیم جمہوریت کے فروغ کے لیے بہت اہم ہے۔

ذرائع کے مطابق اجلاس میں ستائیسویں آئینی ترمیم کی کئی اہم شقوں پر اختلاف رائے موجود ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ روز جے یو آئی (ف) کے ارکان نے کمیٹی اجلاس کا بائیکاٹ کیا تھا جس سے حکومتی رابطوں میں مزید تیزی آ گئی۔

آئینِ پاکستان: 52 سال میں 26 ترامیم کی مختصر کہانی

حکومت کی جانب سے ترمیم کی منظوری یقینی بنانے کے لیے اتحادیوں سے مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔ وزیرِ اطلاعات عطا تارڑ نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت کے پاس دوتہائی اکثریت موجود ہے اور ستائیسویں ترمیم منظور کرا لی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایمل ولی خان نے وزیراعظم کو آگاہ کیا ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اس بل کی حمایت کرے گی۔



دوسری جانب وزیراعظم کی طرف سے آج اتحادی سینیٹرز کے اعزاز میں عشائیہ دیا جا رہا ہے تاکہ ترمیم کے حق میں ووٹوں کی یقین دہانی حاصل کی جا سکے۔

ادھر اپوزیشن اتحاد نے مجوزہ آئینی ترمیم کے خلاف ملک گیر تحریک کا اعلان کر دیا ہے۔ علامہ ناصر عباس نے کہا ہے کہ تحریک آج رات سے شروع ہو جائے گی۔ سینیٹ میں ترمیم پیش کیے جانے کے موقع پر اپوزیشن ارکان نے شدید احتجاج کیا اور حکومتی بنچوں کے سامنے نعرے بازی بھی کی۔

دوسری جانب بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر منظور کاکڑ نے ترمیمی عمل میں صوبے کے مفادات کو نظرانداز کرنے پر تشویش ظاہر کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی صوبائی نشستوں میں اضافہ ضروری ہے کیونکہ 26ویں آئینی ترمیم کے وقت یہ وعدہ کیا گیا تھا۔ منظور کاکڑ نے کہا کہ بلوچستان آدھا پاکستان ہے، ایک ایم پی اے کا حلقہ پانچ سے چھ سو کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اور اتنے بڑے علاقے کو سنبھالنا کسی نمائندے کے لیے ممکن نہیں۔


Source link

Check Also

شہزادہ محمد بن سلمان وائٹ ہاؤس پہنچ گئے، سعودی ولی عہد کا شاندار استقبال – World

شہزادہ محمد بن سلمان وائٹ ہاؤس پہنچ گئے، سعودی ولی عہد کا شاندار استقبال – World

سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان وائٹ ہاؤس پہنچ گئے ہیں، جہاں …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *