روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے امریکا کی جانب سے بھارت پر روسی تیل نہ خریدنے کے لیے دباؤ پر اعتراض کرتے ہوئے ردعمل دیا ہے کہ امریکا خود روس سے ایندھن خریدتا ہے، تو بھارت کے اسی حق کو کیوں چیلنج کیا جا رہا ہے؟
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن دو روزہ دورے پر بھارت پہنچ گئے ہیں۔ جمعرات کی شام بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے دہلی ایئر پورٹ پر ان کا استقبال کیا۔
بھارتی ٹی وی چینل انڈیا ٹو ڈے کو دیے گئے انٹرویو میں صدر پیوٹن نے کہا کہ امریکا آج بھی روس سے جوہری ایندھن خرید رہا ہے۔ بھارت کے بھی وہی حقوق ہیں جو امریکا کے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ‘میرا سوال ہے کہ اگر واشنگٹن روس سے جوہری ایندھن خرید سکتا ہے تو بھارت کو روسی تیل خریدنے پر اعتراض کیوں کیا جا رہا ہے؟‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ اگر بھارت روسی تیل کی خریداری جاری رکھے گا تو امریکا بھارتی درآمدات پر 50 فیصد ٹیرف عائد کرے گا۔ امریکی حکام نے الزام عائد کیا تھا کہ تیل کی فروخت روس کو یوکرین کے خلاف جنگ میں سہارا دے رہی ہے۔
اسی حوالے سے پوچھے گئے سوال پر صدر پیوٹن نے جواب دیا کہ ‘باہمی تجارت کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، صرف معمولی تجارتی اتار چڑھاؤ ہے۔‘ انہوں نے بتایا کہ سال کے پہلے 9 ماہ میں ’تجارتی حجم میں معمولی کمی‘ ضرور آئی ہے مگر یہ کوئی بڑی تبدیلی نہیں۔
انہوں نے بھارت کے ساتھ توانائی اور دفاعی تعاون کو ’دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ’روس بھارت کے ساتھ تجارتی عدم توازن کو درست کرنے پر کام کر رہا ہے‘۔
یوکرین جنگ سے متعلق سوال پر صدر پیوٹن کا کہنا تھا کہ جنگ کی شروعات روس نے نہیں بلکہ یوکرین نے مغرب کے اثر و رسوخ کے تحت خطے میں کشیدگی کو ہوا دی۔
انہوں نے کہا کہ ‘روس پر جنگ مسلط کی گئی اور اب ماسکو اس وقت تک جنگ جاری رکھے گا جب تک وہ اپنے اہداف حاصل نہیں کر لیتا’۔ انہوں نے کہا کہ ‘فوجی کارروائی جنگ کا آغاز نہیں، بلکہ اس کا خاتمہ ہے’۔
Source link
The Republic News News for Everyone | News Aggregator