روس یوکرین جنگ،طاقت کی لڑائی یا بقا کی جنگ؟

رات کے اندھیرے میں یوکرین کے ایک چھوٹے سے شہر پر جب پہلا میزائل گرا تو بچے چیخ اٹھے، مائیں اپنے لختِ جگر کو گود میں سمیٹ کر تہہ خانوں کی طرف بھاگیں اور بوڑھے باپ کی آنکھوں میں صرف ایک سوال تھا کہ یہ جنگ آخر کیوں؟ یہ منظر صرف یوکرین کا نہیں، بلکہ پوری دنیا کا ہے جو اس جنگ کی گونج محسوس کر رہی ہے۔ روس اور یوکرین کی لڑائی نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ صرف زمین کے چند ٹکڑوں کی جنگ نہیں بلکہ طاقت اور بقا کی لڑائی ہے، یہ ایک ایسا معرکہ ہے جو تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔
روس کہتا ہے کہ یہ جنگ اس کی سلامتی کے لیے ہے، کیونکہ نیٹو کی پیش قدمی اسے اپنے وجود کے لیے خطرہ محسوس ہوئی، لیکن یوکرین کے لیے یہ محض زمین نہیں، یہ اس کی شناخت، آزادی اور آنے والی نسلوں کا مستقبل ہے، جہاں اس کی آنیوالی نسلیں پروان چڑھ سکیں۔ اسی لیے یوکرینی عوام نے اپنے ٹوٹے گھروں اور خالی پیٹ کے باوجود ہتھیار نہیں ڈالے، اور سر بکف میدان میں ڈٹے رہے، ان کے لیے یہ بقا کی جنگ ہے، ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ایک تصویر میں یوکرین کے سپاہی کو ہاتھ سے ڈرون اڑانے کی کوشش کرتے دکھایا گیا، یہ اور کچھ نہیں ان کے عزم کو ظاہر کرتی ہے۔
کیف اور خارکیف کی گلیاں خون اور خاک میں لپٹی ہیں۔ بچے کتابوں کی بجائے بمباری کے شور میں پل رہے ہیں۔ مائیں اپنے بچوں کو سکول کی طرف نہیں بلکہ پناہ گزین کیمپوں اور محفوظ پناہ گاہوں کی طرف لے جاتی ہیں۔ یہ جنگ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جنگ کبھی صرف فوجی محاذ پر نہیں لڑی جاتی بلکہ ہر ماں، ہر بچے اور ہر بوڑھے کے دل میں لڑی جاتی ہے، سب کو تحفظ کا احساس دلاتا مرد اس میں سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہوتا ہے۔
دوسری طرف روس اپنی کھوئی عظمت دوبارہ پانے کیلئے بے تاب ہے، سوویت یونین کے زوال کے بعد جب یو ایس ایس آر کا شیرازہ بکھرا تو ان کی نظر میں سب کچھ ختم ہو گیا، لیکن اب روس کے صدر دنیا کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ روس اب بھی ایک بڑی طاقت ہے، لیکن یوکرین کے عوام اور ان کے صدر زیلنسکی دنیا کے سامنے ایک زندہ مثال ہیں کہ چھوٹے ممالک بھی بڑے خواب دیکھ سکتے ہیں اور بڑی طاقتوں کے سامنے ڈٹ سکتے ہیں۔ زیلنسکی کا عوام کے ساتھ کھڑا ہونا اور دنیا سے انصاف کی دہائی دینا اس جنگ کو محض سیاست نہیں رہنے دیتا بلکہ ایک جذباتی کہانی بنا دیتا ہے، جو اس کوشش میں ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اپنی قوم، آنے والی نسل کو بکھرنے اور غلامی سے بچا سکے۔
یہ جنگ میدانِ اب جنگ تک ہی محدود نہیں رہی، بلکہ اس نے ہر طرف تمام اشاریئے بدل کر رکھ دیئے، اس معاشی طور پر تمام ممالک پریشان ہیں، تیل کی قیمتیں آسمان پر پہنچ گئیں، گندم کی سپلائی چین ٹوٹ گئی، یورپ توانائی کے بحران میں ڈوب گیا، افریقہ اور ایشیا میں خوراک کی کمی نے کروڑوں لوگوں کو بھوک کے دہانے پر پہنچا دیا۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں مہنگائی کا طوفان امڈ آیا اور عام آدمی کی زندگی مزید مشکل ہو گئی۔ یہ وہ پس پردہ صورتحال ہے جسے روس سمیت تمام ممالک کو دیکھنا اور سمجھنا چاہئے۔
دوسری طرف میڈیا نے اس جنگ کو ایک نئے انداز سے پیش کیا، ایک تصویر، ایک ویڈیو، ایک بیان اور پوری دنیا میں بیانیے بدل گئے۔ سچ اور جھوٹ کی جنگ شاید اصل جنگ سے بھی زیادہ خوفناک ہے۔ ایک یوکرینی بچی کا روتے ہوئے کہجے میں جملہ، جو کہہ رہی تھی کہ میرا سکول کہاں گیا؟ دنیا کے ہر انسان کو خاموش کر گیا۔ یہ ثابت کرتی ہے کہ جنگ صرف ہتھیاروں سے نہیں، الفاظ اور آنسوؤں سے بھی لڑی جاتی ہے۔ اس کو قطعی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ یہ جنگ کب رکے گی؟ کیا روس اپنی شرائط منوا پائے گا یا یوکرین اپنی مزاحمت سے دنیا کو حیران کرتا رہے گا؟ امن کی باتیں ہوئیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ زمین پر آج بھی بارود بکھرا پڑا ہے اور گھروں میں آج بھی ویرانی چھائی ہوئی ہے۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ جنگ میدان جنگ سے نکل کر نئَ دوراہے پر آ گئی ہے، روس کے لیے طاقت کا کھیل اور یوکرین کے لیے بقا کا امتحان، لیکن اس سب سے بڑھ کر یہ انسانیت کی شکست بھی سمجھی جانی چاہئے۔ تاریخ ہمیشہ بتاتی ہے کہ جنگیں جیتنے والے اور ہارنے والے نہیں چھوڑتیں، صرف ٹوٹے ہوئے گھر، اجڑے خواب اور چیختے دل چھوڑ جاتی ہیں، جس پر ہر آنے والی قوم نوحہ کناں ہوتی ہے۔

تحریر: ماہ نور حسن، اسلام آباد


Source link

Check Also

شہزادہ محمد بن سلمان وائٹ ہاؤس پہنچ گئے، سعودی ولی عہد کا شاندار استقبال – World

شہزادہ محمد بن سلمان وائٹ ہاؤس پہنچ گئے، سعودی ولی عہد کا شاندار استقبال – World

سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان وائٹ ہاؤس پہنچ گئے ہیں، جہاں …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *