بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں کرپشن ہر سطح پر پھیلی ہوئی ہے اور ریاستی اداروں میں بڑے پیمانے پر گورننس کے مسائل موجود ہیں۔ آئی ایم ایف کے دباؤ پر وزارتِ خزانہ نے جمعرات کو رپورٹ جاری کی جس نے ناقدین کو حکومتی کارکردگی پر تنقید کا ایک نیا موقع فراہم کردیا ہے۔
آئی ایم ایف کی مذکورہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں کرپشن ”مسلسل اور تباہ کن“ ہے، جو قومی خزانے، اقتصادی ترقی اور عوامی اعتماد کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2023 سے 2024 تک نیب کی ریکوریوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ کرپشن کس حد تک سرایت کر چکی ہے۔
آئی ایم ایف کی اس رپورٹ پر صحافی ذیشان یوسفزئی نے سماجی رابطے کی سائٹ ’ایکس‘ پر طنزیہ انداز میں لکھا کہ ’ہمیں آئی ایم ایف بھی ٹھیک نہیں ملا، پہلے قرض دیتے ہیں پھر اس پر سود لیتے ہیں اور پھر سارے رازوں سے پردہ اٹھا لیتے ہیں۔ بھلا کون ایسے کرتا ہے؟‘
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان شفافیت اور گورننس میں سنجیدہ اصلاحات کرے تو جی ڈی پی میں 5 سے 6.5 فیصد اضافہ ممکن ہے۔
آئی ایم ایف کی یہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے حال ہی میں دعویٰ کیا تھا کہ حکومتی کاوشوں کی بدولت ملک نے معاشی استحکام حاصل کیا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ تمام معاشی اشاریے مثبت رجحان ظاہر کر رہے ہیں اور تین بڑی عالمی ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستانی معاشی اشاریوں کو مثبت قرار دیا تھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان اب تک 25 مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جا چکا ہے، جو اس کی دائمی معاشی کمزوری کی علامت ہے۔
آئی ایم ایف نے اپنی 186 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں یہ بھی کہا کہ بجٹ سازی، ٹیکس نظام، سرکاری اداروں، سرکاری خریداری اور ریاستی ملکیتی کمپنیوں میں کرپشن سب سے زیادہ ہے۔ عوام آج بھی سرکاری دفاتر میں کام کرانے کے لیے رشوت دینے پر مجبور ہیں۔
صحافی سحرش مان نے کہا کہ ’آئی ایم ایف کی 186 صفحات پر مشتمل رپورٹ صرف رپورٹ نہیں بلکہ معاشی ناکامی اور کرپشن کی ایف آئی آر ہے۔‘
انہوں نے لکھا کہ ’اس ملک میں آنے والے سرمایہ کار اگر آئی ایم ایف رپورٹ کو پڑھیں گے یا اس بارے سنیں گے تو کیا وہ یہاں سرمایہ کاری کریں گے؟‘
صحافی ارسلان ملک کا کہنا ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان تعلقات شدید خراب ہیں اور وجہ صرف اور صرف کرپشن ہے۔
صحافی ہارون الرشید نے بھی کہا کہ آئی ایم ایف رپورٹ کے بعد ’غیر ملکی سرمایہ کاری کا رہا سہا امکان بھی ختم‘۔
پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے آئی ایم ایف رپورٹ کو حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ پاکستان میں کرپشن کا تسلسل ہے اور بدعنوانی کی ہی وجہ سے ملکی مجموعی ترقی متاثر ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) میں بڑے پیمانے پر شفافیت کا مطالبہ بھی سامنے آیا ہے۔
حکومت نے غیرملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے ایک خصوصی ادارہ ایس آئی ایف سی کے نام سے تشکیل دیا تھا۔ جس کا مقصد سرمایہ کاروں کو سہولیات اور آسانیاں فراہم کرنا تھا۔ تاہم، آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں اس ادارے کے قیام پر سوال اٹھایا کہ جب بورڈ آف انویسٹمنٹ پہلے سے موجود تھا تو ایس آئی ایف سی کو علیحدہ سے کیوں بنایا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ایس آئی ایف سی کے وسیع اختیارات، فیصلہ سازی میں دی گئی قانونی مراعات، اور اس کی اندرونی ساخت شفافیت کے تقاضوں پر پوری نہیں اترتی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ عدلیہ ناقص قوانین، سست انصاف، اور کمزور احتساب کے باعث بدعنوانی کے اثرات روکنے میں ناکام ہے۔ طاقتور کاروباری اور سیاسی طبقات پالیسیوں کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں، جس کی مثال 2019 میں چینی برآمد کا فیصلہ ہے جس سے ملک میں مصنوعی بحران پیدا ہوا۔
رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی کہ حالیہ عدالتی اصلاحات (26ویں آئینی ترمیم) پر شکوک موجود ہیں کہ کہیں یہ عدلیہ کی آزادی کو کمزور نہ کر دیں۔
جس پر ماہر معاشیات جاوید حسان نے تبصرہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ آئی ایم ایف کی یہ رپورٹ بظاہر 27ویں ترمیم کے لیے تیار کیا گیا ایک خاص ہتھیار ہے۔
انہوں نے لکھا کہ رپورٹ میں عدالتی تاخیر، غیر ضروری بھرتیوں، اور دیانت داری کے مسائل کی تفصیل تو موجود ہے، مگر اس کے بعد ایک واضح نتیجہ قارئین کے سامنے یونہی لٹکا چھوڑ دیا ہے کہ عدالتیں ناکام ہوگئیں اور حکومت کا پیش کردہ “حل” مکمل طور پر قبول کرنا ہی مسائل کے حل کا واحد راستہ ہے۔
جاوید حسان نے کہا کہ ’اس رپورٹ کی تشخیص کو استعمال کرکے وہی خراب نظام مضبوط کیا جائے گا جسے اس رپورٹ میں بظاہر درست کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ یہ رپورٹ پاکستان میں جاری جمہوری پسپائی کو بین الاقوامی جواز کا لبادہ پہنا سکتی ہے۔‘
آئی ایم ایف کی رپورٹ پر ردعمل دیتے ہوئے سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ ’یہ رپورٹ ہمارے لیے بطور پاکستانی شرمناک ہے۔ اندازہ لگائیں کہ ہماری سسکتی معیشت اگر آج ڈھائی فیصد پر کھڑی ہے تو وہ کرپشن کی وجہ سے ہے۔ یہی معیشت پانچ سے چھ فیصد پر جا سکتی ہے اگر صرف ہم کرپشن پر قابو پا لیں۔‘
سابق گورنر سندھ اور حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے سابق رہنما محمد زبیر نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’گزشتہ تین برسوں میں پانچ کھرب روپے سے زائد کی کرپشن پکڑی گئی ہے۔ صرف اسی بنیاد پر موجودہ حکومت کو استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ پاکستان کے عوام کو بے دردی سے لوٹا گیا ہے اور یہ لوٹ مار رکے گی نہیں۔‘
محمد زبیر نے رپورٹ میں ایس آئی ایف سی سے متعلق اٹھائے گئے سوالات پر بھی ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ ’آئی ایم ایف کی رپورٹ صرف 5.3 کھرب روپے کی کرپشن کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ ایس آئی ایف سی کے خلاف ایک بہت سخت فردِ جرم بھی ہے۔‘
ان کے بقول، ’جون 2023 میں جب ایس آئی ایف سی قائم کیا گیا تھا تو ہمیں 100 ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری کے وعدے کیے گئے تھے، مگر کچھ بھی نہیں آیا۔ اس کے برعکس، آئی ایم ایف کی رپورٹ میں فیصلہ سازی میں سنگین ناکامیوں اور ایس آئی ایف سی کی جانب سے حکومتی قواعد و ضوابط کی عدم پیروی کو بے نقاب کیا گیا ہے۔‘
واضح رہے کہ آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں حکومتِ پاکستان کو تجویز دی ہے کہ شفاف عدالتی تقرریاں، مضبوط ادارہ جاتی احتساب اور گورننس کی جامع اصلاحات کرنا ہوں گی، ورنہ کرپشن معیشت کو مسلسل کھوکھلا کرتی رہے گی۔
Source link
The Republic News News for Everyone | News Aggregator